Monday, July 25, 2016

برداشت BARDASHT

برداشت

صدر ایوب خان پاکستان کے پہلے ملٹری ڈکٹیٹر تھے‘ وہ روزانہ سگریٹ کے دو بڑے پیکٹ پیتے تھے‘ روز صبح ان کا

بٹلر سگریٹ کے دو پیکٹ ٹرے میں رکھ کر ان کے بیڈ روم میں آجاتاتھا اورصدر ایوب سگریٹ سلگا کر اپنی صبح کا آغاز کرتے تھے‘ وہ ایک دن مشرقی پاکستان کے دورے پر تھے‘ وہاں ان کا بنگالی بٹلرانہیں سگریٹ دینا بھول گیا‘ جنرل ایوب خان کو شدید غصہ آیا اورانہوں نے بٹلر کو گالیاں دینا شروع کر دیں۔ جب ایوب خان گالیاں دے دے کر تھک گئے تو بٹلر نے انہیں مخاطب کر کے کہا ’’جس کمانڈر میں اتنی برداشت نہ ہو وہ فوج کو کیا چلائے گا‘ مجھے پاکستانی فوج اور اس  ملک کا مستقبل خراب دکھائی دے رہا ہے‘‘۔ بٹلر کی بات ایوب خان کے دل پر لگی ‘ انہوں نے اسی وقت سگریٹ ترک کر دیا اور پھر باقی زندگی سگریٹ کو ہاتھ نہ لگایا۔ 

 آپ نے رستم زمان گاما پہلوان کا نام سنا ہو گا۔ہندوستان نے آج تک اس جیسا دوسرا پہلوان پیدا نہیں کیا‘ ایک بار ایک    
کمزور سے دکاندار نے گاما پہلوان کے سر میں وزن کرنے والاباٹ مار دیا۔ گامے کے سر سے خون کے فوارے پھوٹ پڑے‘ گامے نے سرپر مفلر لپیٹا اور چپ چاپ گھر لوٹ گیا۔ لوگوں نے کہا’’ پہلوان صاحب آپ سے اتنی کمزوری کی توقع نہیں تھی‘ آپ دکاندار کو ایک تھپڑ مار دیتے تو اس کی جان نکل جاتی‘‘۔ گامے نے جواب دیا ’’مجھے میری طاقت نے پہلوان نہیں بنایا‘ میری برداشت نے پہلوان بنایا ہے اور میں اس وقت تک رستم زمان رہوں گا جب تک میری قوت برداشت میرا ساتھ دے گی‘‘۔ 
قوت برداشت میں چین کے بانی چیئرمین ماؤزے تنگ اپنے دور کے تمام لیڈرز سے آگے تھے‘ وہ75سال کی عمر میں
سردیوں کی رات میں دریائے شنگھائی میں سوئمنگ کرتے تھے اوراس وقت پانی کا درجہ حرارت منفی دس ہوتا تھا۔ ماؤ انگریزی زبان کے ماہر تھے لیکن انہوں نے پوری زندگی انگریزی کا ایک لفظ نہیں بولا ۔آپ ان کی قوت برداشت کا اندازا لگائیے کہ انہیں انگریزی میں لطیفہ سنایا جاتا تھا‘ وہ لطیفہ  سمجھ جاتے تھے لیکن خاموش رہتے تھے لیکن بعدازاں جب مترجم اس لطیفے کا ترجمہ کرتا تھا تو وہ دل کھول کر ہنستے تھے ۔

 قوت برداشت کا ایک واقعہ ہندوستان کے پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر بھی سنایا کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے انہوں نے
زندگی میں صرف ڈھائی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان کی پہلی کامیابی ایک اژدھے کے ساتھ لڑائی تھی‘ ایک جنگل میں بیس فٹ کے ایک اژدھے نے انہیں جکڑ لیا اور بابر کو اپنی جان بچانے کیلئے اس کے ساتھ بارہ گھنٹے اکیلے لڑنا پڑا۔ ان کی دوسری کامیابی خارش تھی۔ انہیں ایک بارخارش کا مرض لاحق ہو گیا‘خارش اس قدر شدید تھی کہ وہ جسم پر کوئی کپڑا نہیں پہن سکتے تھے۔ بابر کی اس بیماری کی خبر پھیلی تو ان کا دشمن شبانی خان ان کی عیادت کیلئے آ گیا۔ یہ بابر کیلئے ڈوب مرنے کا مقام تھا کہ وہ بیماری کے حالت میں اپنے دشمن کے سامنے جائے۔ بابر نے فوراً پورا شاہی لباس پہنا اور بن ٹھن کر شبانی خان کے سامنے بیٹھ گیا‘ وہ آدھا دن شبانی خان کے سامنے بیٹھے رہے‘ پورے جسم پر شدید خارش ہوئی لیکن بابر نے خارش نہیں کی۔ بابران دونوں واقعات کو اپنی دو بڑی کامیابیاں قرار دیتا تھا اورآدھی دنیا کی فتح کو اپنی آدھی کامیابی کہتا تھا۔ 


دنیا میں لیڈرز ہوں‘ سیاستدان ہوں‘ حکمران ہوں‘ چیف ایگزیکٹو ہوں یا عام انسان ہو‘ان کا اصل حسن ان کی قوت برداشت ہوتی ہے۔ دنیا میں کوئی شارٹ ٹمپرڈ‘ کوئی غصیلہ اور کوئی جلد باز شخص ترقی نہیں کر سکتا۔ دنیا میں معاشرے‘ قومیں اور ملک بھی صرف وہی آگے بڑھتے ہیں جن میں قوت برداشت ہوتی ہے۔ جن میں دوسرے انسان کی رائے‘ خیال اور اختلاف کو برداشت کیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک‘ ہمارے معاشرے میں قوت برداشت میں کمی آتی جا رہی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص ہروقت کسی نہ کسی شخص سے لڑنے کیلئے تیار بیٹھا ہے۔ شائد قوت برداشت کی یہ کمی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں دنیا میں سب سے زیادہ قتل اور سب سے زیادہ حادثے ہوتے ہیں لیکن یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کیا ہم اپنے اندر برداشت پیدا کر سکتے ہیں؟ 


اس کا جواب ہاں ہے اور اس کا حل رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں ہے۔ ایک بار ایک صحابیؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا ’’یارسول اللہ ﷺآپ مجھے زندگی کو پر سکون اور خوبصورت بنانے کاکوئی ایک فارمولہ بتا دیجئے‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا ’’غصہ نہ کیا کرو‘‘ آپﷺ نے فرمایا ’’دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ اول وہ لوگ جو جلدی غصے میں آجاتے ہیں اور جلد اصل حالت میں واپس آ جاتے ہیں۔ دوم وہ لوگ جو دیر سے غصے میں آتے ہیں اور جلد اصل حالت میں واپس آ جاتے ہیں اور سوم وہ لوگ جو دیر سے غصے میں آتے ہیں اور دیر سے اصل حالت میں لوٹتے ہیں‘‘ آپﷺ نے فرمایا ’’ ان میں سے بہترین دوسری قسم کے لوگ ہیں جبکہ بدترین تیسری قسم کے انسان‘‘۔ غصہ دنیا کے90فیصد مسائل کی ماں ہے اور اگر انسان صرف غصے پر قابو پا لے تواس کی زندگی کے 90فیصد مسائل خت

Friday, July 22, 2016

Shaikh Junaid Baghdai ka Waqia

یک بار شیخ جنید بغدادی سفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔ حضرت شیخ کےl
 کچھ مرید ساتھ تھے۔ شیخ نے مریدوں سے پوچھا: "تم لوگوں کو بہلول کا حال معلوم ہے؟"
لوگوں نے کہا: " حضرت! وہ تو ایک دیوانہ ہے۔ آپ اس سے مل کر کیا کریں گے؟"
شیخ نے جواب دیا: "ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔"
مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لیے سعادت سمجھی۔ تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں بہلول کو ڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔ شیخ، بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ بہلول سر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے دراز ہیں۔ شیخ نے سلام کیا تو بہلول نے جواب دے کر پوچھا: "تم کون ہو؟"
"میں ہوں جنید بغدادی۔"
"تو اے ابوالقاسم! تم ہی وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟"
"جی ہاں، کوشش تو کرتا ہوں۔"
"اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو ں گے؟"
"کیوں نہیں، بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں، چھوٹا نوالہ بناتا ہوں، آہستہ آہستہ چباتا ہوں، دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا اور کھانا کھاتے وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔"
پھر دوبارہ کہا: "جو لقمہ بھی کھاتا ہوں، الحمدللہ کہتا ہوں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ دھوتا ہوں۔"
یہ سن کر بہلول اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید کی طرف جھٹک دیا۔ پھر ان سے کہا: "تم انسانوں کے پیر مرشد بننا چاہتے ہو اور حال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔"
یہ کہہ کر بہلول نے اپنا راستہ لیا۔ شیخ کے مریدوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔"
"ہاں! دیوانہ تو ہے، مگر اپنے کام کے لیے ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔ اس سے سچی بات سننا چاہیے۔ آؤ، اس کے پیچھے چلیں۔ مجھے اس سے کام ہے۔"
بہلول ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ شیخ بغدادی اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا: "کون ہو تم؟"
"میں ہوں بغدادی شیخ! جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا۔"
بہلول نے کہا: "خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے ناواقف ہو تو گفتگو کا طریقہ جانتے ہی ہوں گے؟"
شیخ نے جواب دیا: "جی ہاں جانتا تو ہوں۔"
"تو بتاؤ، کس طرح بات کرتے ہو؟"
"میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بےموقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا، سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کر کے خلق خدا کو اللہ اور رسول ﷺ کے احکام کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہو جائیں۔ باطنی اور ظاہر ی علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں۔" اس کے ساتھ گفتگو کے آداب سے متعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کیں۔
بہلول نے کہا: "کھانا کھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔ تمھیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔" پھر شیخ سے منہ پھیرا اور ایک طرف چل دیے۔ مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔ انہوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟"
"بھئی! مجھے تو اس سے کام ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھ سکتے۔" اس کے بعد شیخ نے پھر بہلول کا پیچھا کیا۔ بہلول نے مڑ کر دیکھا اور کہا: "تمھیں کھانا کھانے اور بات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں ۔ سونے کا طریقہ تو تمھیں معلوم ہی ہو گا؟"
شیخ نے کہا: "جی ہاں! معلوم ہے۔"
"اچھا بتاؤ، تم کس طرح سوتے ہو؟"
"جب میں عشا کی نماز اور درود و وظائف سے فارغ ہوتا ہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔" یہ کہہ کر شیخ نے سونے کے وہ آداب بیان کیے جو انہیں بزرگان دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔
بہلول نے کہا: "معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے۔"
یہ کہہ کر بہلول نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا: "اے حضرت! میں نہیں جانتا ۔ اللہ کے واسطے تم مجھے سکھا دو۔"
کچھ دیر بعد بہلول نے کہا: "میاں! یہ جتنی باتیں تم نے کہیں، سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہیے۔ اگر غذا میں حرام کی آمیزش (ملاوٹ) ہو جائے تو جو آداب تم نے بیان کیے، ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا اور دل روشن ہونے کے بجائے اور تاریک ہو جائے گا۔"
شیخ جنید نے بےساختہ کہا: "جزاک اللہ خیرأً۔" (اللہ تمہارا بھلا کرے)
پھر بہلول نے بتایا: "گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک اور نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے ، اللہ کی رضامندی کے لیے ہو۔ اگر کوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاؤ یا بات فضول قسم کی ہو گی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی، تمہارے لیے وبال بن جائے گی، اس لیے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے۔"
پھر سونے کے متعلق بتایا: "اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمہارا دل بغض، کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمہارے دل میں دنیا اور مالِ دنیا کی محبت نہ ہو اور نیند آنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہو۔"
بہلول کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ شیخ جنید کے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے میں ذرا بھی نہ شرمانا  نہیں چاہیے  ...
x

Wednesday, July 20, 2016

ایسی تحریر جو آپ کو سوچنے پر مجبور کر دے

 ایسی تحریر جو آپ کو سوچنے پر مجبور کر دے 🔵

میں جلدی جلدی آفس سے گھر آیا۔۔ اور اماں کو کھانے کا کہہ کر وضو کرنے چلا گیا۔۔۔  مغرب کا وقت ختم ہونے والا تھا۔۔

جیسے تیسے وضو کیا اور نیت باندھ لی۔۔۔ دوران نماز بار بار اپنے گیلے چہرے کو اپنی کھلی آستینوں سے صاف کرتا رہتا۔۔۔

رکوع میں جاتے خیال آیا:
 " اماں کی دوائی تو لانا بھول ہی گیا۔۔۔  اوہ واپسی پر بچوں کی فیس کیلئے پیسے بھی اے ٹی ایم سے نکالنے تھے.۔۔

پھر سجدہ کیا تو وہاں بھی گھریلو ذمہ داریاں ایک ایک کر کے یاد آنے لگیں۔۔۔۔ تھکاوٹ کی وجہ سے نماز میں نیند کی جھٹکے آنے لگے.۔۔ بس پھر کیا تھا سجدے میں جاتے ہی نیند (غنودگی) کا جھونکا آ گیا۔۔۔۔

نیند میں عجیب منظر دیکھا۔۔۔
لوگوں کا ہجوم۔۔۔ ہر کوئی یہاں وہاں بھاگ رہا تھا۔۔۔ کچھ لوگ کاغذ تقسیم کر رہے تھے۔۔ میرے پاس آکر بھی کاغذ تھما دیا۔۔ جس پر میرا نام لکھا تھا۔۔

پوچھنے پر بتایا گیا یہ تمہارا اعمال نامہ ہے۔۔ اب جا کر وہاں سامنے جمع کروا دو جہاں باقی سب جمع کروا رہے ہیں۔۔
پھر نام پکارا جائیگا فیصلے کیلئے...
میں نے بھی جا کر کاغذ جمع کروا دئیے اور لائن میں واپس آگیا اور اپنے نام پکارے جانے کا انتظار کرنے لگا۔۔۔۔
 نام پکارا جانے لگا.۔۔
" فلاں بن فلاں : جنت "
" فلاں بن فلاں : جنت "
اب تیسرے نمبر پر میرا نام پکارا گیا۔۔ میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔۔ یا اللہ اب کیا بنے گا۔۔۔
ساتھ ہی فیصلہ بھی سنا دیا گیا " جہنم "

مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔۔۔۔  دو  قد آور لوگ آئے اور مجھے گھسیٹنے لگے۔۔  میں پکارنے لگا رکو رکو.....
 ۔۔۔ شاید یہ کسی اور کا نام ہوگا۔۔ میرا تو  " جنت " والوں میں  آنا تھا۔۔۔
مگر مجھے غصے سے خاموش کروا دیا گیا.
 " ہمارے ہاں فیصلے میں غلطی کا امکان ہی نہیں "

مجھے جہنم کیطرف گھسیٹا جا رہا تھا اور میں مدد کی بھیک مانگتا جاتا۔۔۔
نہ میں جھوٹ بولتا تھا۔۔۔ نہ دھوکہ فریب دیتا۔۔۔ نہ شراب اور زنا جیسے کام میں ملوث تھا۔۔ پھر جہنم کیوں.!!! مگر کوئی سننے کو تیار نہیں تھا۔۔۔

جہنم کی  گرمی مجھے محسوس ہونے لگی۔۔ اندھیرے گڑھے میں مجھے پھینکنے کو تیار کھڑے تھے۔۔۔  مجھے اچانک اپنی نماز کا خیال آیا۔۔۔ نماز ۔۔۔۔ نماز ۔۔۔۔ کہاں ہو تم....؟؟؟
نماز بھی خاموش۔۔۔

جہنم کی آگ کے شعلے مجھ سے لپٹنے کو بے چین ہو رہے تھے۔۔۔ اور مجھے جہنم میں دھکّا دے دیا گیا. مجھے جیسے ہی دھکا دیا ایک سفید بزرگ نے فورا میرا ہاتھ تھام لیا اور مجھے جہنم سے باہر کھینچتے ہوئے باہر نکالا۔۔۔
میں ڈر سے کانپ رہا تھا۔۔۔ پوچھنے لگا۔۔ آپ کون ہیں اور مجھے کیوں بچایا.!!!
کہنے لگے میں تمہاری نماز ہوں۔۔ میں غصے سے چلایا ۔۔ اب آرہے ہو جب میں جہنم میں ڈالنے جا رہا تھا؟؟؟ اگر عین وقت پر تم نہ آتے تو میں تو چلا گیا تھا جہنم میں۔۔۔۔ پہلے نہیں آسکتے تھے تم؟؟؟
بزرگ کہنے لگے۔۔۔  جیسے تم مجھے تاخیر سے پڑھتے تھے کبھی وقت پر نہیں پڑھا ویسے ہی میں بھی  تاخیر سے آیا ہوں۔۔۔۔ کبھی تم نے مجھے وقت پر پڑھا ہی نہیں تو میں وقت پر کیسے آتا۔۔۔۔
میری  اکھڑی اکھڑی سانس اب قدرے بحال ہونے لگی۔۔۔

میری ماں نے آکر مجھے سجدے میں ہلایا تو میری آنکھ کھلی۔۔۔
بیٹا خیر ہے؟؟ تم " نماز، نماز پکار رہے تھے سجدے میں۔۔۔ میں حیرت سے خود کو ٹٹولنے لگا کہ میں زندہ ہوں۔۔!!
پسینے سے شرابور۔۔
ماں کے ہاتھوں کو چومنے لگا۔۔۔۔۔ اللہ کا شکر ادا کرنے لگا جیسے دوبارہ نئی زندگی ملی ہو مجھے۔۔.
اور
میں نے پختہ اور کیا کہ آئندہ نماز میں کبھی سستی نہیں کروں گا.

اب میں جہاں کہیں بهی جاتا ہوں تو وہاں بھی نماز کی فکر رہتی ہے۔۔۔ کان ہر وقت آذان سننے کو تیار رہتے ہیں ۔۔ اب میں لیٹ نہیں ہونا چاہتا نماز میں۔۔

دوستو ! چاہے دنیا کے کسی کونے میں کیوں نہ ہوں۔۔۔  کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں۔۔۔۔۔ زمین یہاں سے وہاں ہی کیوں نہ کر دی جائے۔۔۔ بس یہ یاد رکھنا۔
"نماز اپنے وقت پر ادا کرنا نہ بھولنا"

● اچھا لگا تو share ضرور کریں.

صرف 1 منٹ ہی لگے گا، ہو سکتا ہے کوئی توبہ کرکے نماز کا پابند بن جائے اور آپ کے لئے صدقِہ جاريہ بن جائے.

An Islamic Incident of a jew.

ﺍﯾﮏ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ : ﺟﺎﺅ ﺳﻮﺩﺍ ﻟﮯ ﺁﺅ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮔﯿﺎ، ﻟﮍﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﯿﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﭘﺮ ﭘﮍﯼ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﯿﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ
ﮐﯽ ﻧﻈﺮﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﮯ ﭘﺮ ﭘﮍﯼ ، ﻭﮦ ﻭﮨﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﺮ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ .
ﻭﮦ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎﺗﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﺗﺎ ﮐﮧ ﻟﮍﮐﺎ ﮐﮩﺎﮞ
ﺭﮦ ﮔﯿﺎ، ﺁﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ
ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ، ﺳﻮﺭﺝ ﻏﺮﻭﺏ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﻣﻐﺮﺏ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ، ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﮔﮭﺮ ﮔﯿﺎ ﺑﺎﭖ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﺍﺭﮮ ﻧﺎﺩﺍﻥ ﺍﺗﻨﯽ ﺗﺎﺧﯿﺮ ﻛﻲ ؟ ﺑﺎﭖ ﺑﮩﺖ ﻏﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﮧ ﺑﮍﺍ ﻧﺎﺩﺍﻥ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﮔﻞ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﻠﺪﯼ ﺁﻧﺎ ﺗﻢ ﺍﺗﻨﯽ ﺩﯾﺮ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺁﺋﮯ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺳﻮﺩﺍ ﻟﯿﻨﮯ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻢ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﺎﺗﮫ
ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﮔﺌﮯ ﮨﻮ، ﺳﻮﺩﺍ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﮯ؟ ﺳﻮﺩﺍ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﮯ؟
ﺑﯿﭩﺎ ﺑﻮﻻ : ﺳﻮﺩﺍ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺧﺮﯾﺪ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ .
ﺑﺎﭖ : ﮐﯿﺎ ﭘﺎﮔﻞ ﺁﺩﻣﯽ ﮨﻮ ﺗﻢ؟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﺠﮭﮯ ﺳﻮﺩﺍ ﻟﯿﻨﮯ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﺗﮭﺎ، ﺳﻮﺩﺍ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﮨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ، ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﺧﺮﯾﺪ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ .
ﺑﯿﭩﺎ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ : ﺑﺎﺑﺎ ! ﯾﻘﯿﻦ ﮐﺮﯾﮟ، ﺳﻮﺩﺍ ﺧﺮﯾﺪ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ .
ﺑﺎﭖ ﺑﻮﻻ : ﺗﻮ ﺩﮐﮭﺎ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﮯ؟
ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﮐﺎﺵ ﺗﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﻭﮦ ﺁﻧﮑﮫ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﻮ ﺗﺠﮭﮯ ﺩﮐﮭﺎﺗﺎ ﻣﯿﺮﺍ ﺳﻮﺩﺍ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ! ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﺑﺎ ! ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺑﺘﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺳﻮﺩﺍ ﺧﺮﯾﺪ ﻻﯾﺎ ﮨﻮﮞ؟
ﺑﺎﭖ ﻧﮯ ﺑﻮﻻ : ﭼﻞ ﭼﮭﻮﮌ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﮮ،
ﻭﮦ ﻟﮍﮐﺎ ﺭﻭﺯ ﻧﺒﯽ ﺍﮮ ﺭﺣﻤﺖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﯿﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮧ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ .
ﻭﮦ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﺎ ﺍﮐﻠﻮﺗﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺗﮭﺎ ، ﺑﮩﺖ ﭘﯿﺎﺭﺍ ﺗﮭﺎ، ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﮐﮩﺎ ، ﮐﭽﮫ ﺩﻧﻮﮞ ﺑﻌﺪ ﻟﮍﮐﺎ ﺑﮩﺖ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ، ﮐﺎﻓﯽ ﺩﻥ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺭﮨﺎ، ﺍﺗﻨﺎ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ ﺍﺗﻨﯽ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﮐﺮﻭﭦ ﻟﯿﻨﺎ ﻣﺸﮑﻞ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ، ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻗﺮﯾﺐ ﺍﻟﻤﺮﮒ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ، ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺑﮩﺖ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﺗﮭﺎ، ﭘﮭﺮ ﺑﮭﺎﮔﺎ ﮔﯿﺎ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﯿﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻻ ﻣﯿﮟ
ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ، ﺁﭖ ﺗﻮ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮨﻮﮞ ﻣﺠﮭﮯ ﺁﭖ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺗﺘﻔﺎﻕ ﻧﮩﯿﮟ، ﻣﮕﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﻟﮍﮐﺎ ﺁﭖ ﺩﻝ ﺩﮮ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﻗﺮﯾﺐ ﺍﻟﻤﺮﮒ ﮨﮯ ، ﺁﭖ ﮐﻮ ﺭﺍﺕ ﺩﻥ ﯾﺎﺩ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ، ﮐﯿﺎ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺱ ﺩﺷﻤﻦ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺁ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻌﺸﻮﻕ ﻋﺎﺷﻖ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﻧﻈﺮ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ؟ ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﺁﺭﺯﻭ ﭘﻮﺭﯼ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ
ﻣﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺁﭖ ﷺ ﮐﺎ ﺩﯾﺪﺍﺭ ﮐﺮ ﻟﮯ ؟ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﭼﯿﺰ ﮐﯽ ﺁﺭﺯﻭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺭﮬﺎ
ﺁﭖ ﷺ ﻧﮯ ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ ،
ﺁﭖ ﷺ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﺍﺑﻮ ﺑﮑﺮ ! ﺍﭨﮭﻮ ، ﻋﻤﺮ ! ﺍﭨﮭﻮ، ﻋﻠﯽ ! ﭼﻠﻮ، ﭼﻠﯿﮟ ، ﻋﺜﻤﺎﻥ ! ﺁﺅ، ﺑﺎﻗﯽ ﺑﮭﯽ ﺟﻮ ﺳﺐ ﮨﯿﮟ ﭼﻠﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻋﺎﺷﻖ ﮐﺎ ﺩﯾﺪﺍﺭ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﯾﮟ ، ﺍﭘﻨﺎ ﺩﯾﺪﺍﺭ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ . ﺁﺧﺮﯼ ﻟﻤﺤﮧ ﮨﮯ، ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺳﮯ ﮨﻢ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ
ﮨﯿﮟ، ﭼﻠﻮ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﺗﮭﯿﮟ،
ﺣﻀﻮﺭ ﷺ ﮐﺎ ﺳﺮﺍﭘﺎ ﮐﺮﻡ ﮨﯽ ﮐﺮﻡ ﮨﮯ، ﻟﮍﮐﮯ ﮐﯽ ﭘﯿﺸﺎﻧﯽ ﭘﺮ ﺁﭖ ﷺ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺳﺖ ﺍﻗﺪﺱ ﺭﮐﮭﺎ، ﻟﮍﮐﮯ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮐﮭﻞ ﮔﺌﯿﮟ، ﺟﯿﺴﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻟﻮﭦ ﺁﺋﯽ ﮨﻮ، ﺟﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﻃﺎﻗﺖ ﺁ ﮔﺌﯽ، ﻧﺎﺗﻮﺍﻧﻲ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺍﻧﯽ ﺁﺋﯽ ، ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮐﮭﻮﻟﯿﮟ، ﺭﺥ ﻣﺼﻄﻔﯽ ﷺ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﭘﮍﯼ، ﮨﻠﮑﯽ ﺳﯽ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﺁﺋﯽ، ﻟﺐ ﮐﮭﻞ ﮔﺌﮯ،
ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﭘﮭﯿﻞ ﮔﺌﯽ، ﺣﻀﻮﺭ ﷺ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﺑﺲ ! ﺍﺏ ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮪ ﻟﻮ .
ﻟﮍﮐﺎ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﻣﻨﮧ ﺗﮑﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺑﻮﻻ : ﻣﯿﺮﺍ ﻣﻨﮧ ﮐﯿﺎ ﺗﻜﺘﺎ ﮨﮯ؟ ﺍﺑﻮﺍﻟﻘﺎﺳﻢ ( ﻣﺤﻤﺪ ﺍﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﷺ ) ﺟﻮ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻛﺮﻟﻮ .
ﻟﮍﮐﺎ ﺑﻮﻻ : ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ! ﷺ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ !
ﺁﭖ ﷺ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﺑﺲ ﺗﻢ ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﻮ ! ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﻮ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﺖ ﺟﺎﻧﮯ، ﺗﻢ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﻮ، ﺟﺎﺅ ﺟﻨﺖ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﮨﮯ، ﺟﻨﺖ ﻣﮯ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ .
ﻟﮍﮐﮯ ﻧﮯ ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ، ﺟﺐ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ " ﻣﺤﻤﺪ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ " ﺭﻭﺡ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ، ﻛﻠﻤﮯ ﮐﺎ ﻧﻮﺭ ﺍﻧﺪﺭ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ، ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﺋﯿﮟ، ﻟﺐ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮﺋﮯ،
ﺍﺱ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﺎ ﺑﺎﭖ ﻭﮦ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺑﻮﻻ :
ﻣﺤﻤﺪ ! ( ﷺ ) ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﺨﺎﻟﻒ ﮨﯿﮟ،
ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﯾﮧ ﻟﮍﮐﺎ ﺍﺏ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺎ ، ﺍﺏ ﯾﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﻣﻘﺪﺱ ﺍﻣﺎﻧﺖ ﮨﮯ، ﻛﺎﺷﺎﻧﮧ ﺍﮮ ﻧﺒﻮﺕ ﷺ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺍﭨﮭﮯ ، ﺗﺐ ﮨﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﮨﮯ، ﻟﮯ ﺟﺎﺅ ﺍﺱ ﮐﻮ .
ﭘﮭﺮ ﺁﭖ ﷺ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﺻﺪﯾﻖ ! ﺍﭨﮭﺎﻭ، ﻋﻤﺮ ! ﺍﭨﮭﺎﻭ، ﻋﺜﻤﺎﻥ ! ﺁﮔﮯ
ﺑﮍﮬﻮ ، ﺑﻼﻝ ! ﺁﺅ ﺗﻮ ﺳﮩﯽ، ﻋﻠﯽ ! ﭼﻠﻮ ﺩﻭ ﮐﻨﺪﮬﺎ ، ﺳﺐ ﺍﭨﮭﺎﻭ ﺍﺳﮯ ،
ﺁﻗﺎ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺟﺐ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ :
ﺍﺱ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺷﮑﺮ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺻﺪﻗﮯ ﺳﮯ ﺍﺱ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﻮ ﺑﺨﺶ ﺩﯾﺎ،
ﺍﺱ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺷﮑﺮ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺻﺪﻗﮯ ﺳﮯ ﺍﺱ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﻮ ﺑﺨﺶ ﺩﯾﺎ،
( ﺍﻟﻠﮧ ﻫﻮ ﺍﮐﺒﺮ ! ﮐﯿﺎ ﻣﻘﺎﻡ
ﮨﻮﮔﺎ ﺍﺱ ﻋﺎﺷﻖ ﮐﯽ ﻣﻴﺖ ﮐﺎ ﺟﺲ ﮐﻮ ﻋﻠﯽ، ﻋﺜﻤﺎﻥ ، ﺍﺑﻮ ﺑﮑﺮ ﺻﺪﯾﻖ ، ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺧﻄﺎﺏ ، ﺑﻼﻝ ﺣﺒﺸﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮭﮩﻤﺎ ﺟﯿﺴﯽ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺷﺨﺼﯿﺎﺕ ﮐﻨﺪﮬﺎ ﺩﮮ ﮐﺮ ﻟﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﮞ، ﺍﻭﺭ ﺁﮔﮯ ﺁﮔﮯ
ﻣﺤﻤﺪ ﻣﺼﻄﻔﯽ ﷺ ﮨﻮﮞ )
ﻗﺒﺮ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮﺋﯽ، ﮐﻔﻦ ﭘﮩﻨﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ، ﺣﻀﻮﺭ ﷺ ﻗﺒﺮ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ، ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﮮ ﻫﻮﮮ ، ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻓﯽ ﺩﯾﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﺭﮨﮯ ، ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺱ
ﻋﺎﺷﻖ ﮐﯽ ﻣﻴﺖ ﮐﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﺗﺎﺭﺍ . ﺁﭖ ﷺ ﻗﺒﺮ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﭘﻨﺠﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻞ ﭼﻞ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ، ﻣﮑﻤﻞ ﭘﺎﺅﮞ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮫ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ، ﮐﺎﻓﯽ ﺩﯾﺮ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﭖ ﷺ ﻗﺒﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﭼﮩﺮﮦ
ﭘﺮ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺯﺭﺩﯼ ﭼﮭﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ، ﺗﮭﻜﻦ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺋﯽ ، ( ﺍﻟﻠﮧ ﮬﻮ ﻏﻨﯽ )
ﺻﺤﺎﺑﮧ ﭘﻮﭼﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ : ﺣﻀﻮﺭ ! ﷺ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﻣﺎﺟﺮﺍ ﮨﮯ؟ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺑﺘﺎﺋﮯ ﺁﭖ ﷺ ﻧﮯ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﺅﮞ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﻣﮑﻤﻞ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ؟
ﺁﭖ ﷺ ﭘﻨﺠﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻞ ﮐﯿﻮﮞ ﭼﻠﺘﮯ ﺭﮨﮯ؟
ﺗﻮ ﮐﺮﯾﻢ ﺁﻗﺎ ﷺ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﻗﺒﺮ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺑﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﺁﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ، ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺟﮕﮧ ﻣﻠﺘﯽ ﺗﮭﯽ ، ﻣﯿﮟ
ﭘﻨﺠﮧ ﮨﯽ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﭘﺎﺅﮞ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ، ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﺴﯽ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﮐﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﭘﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﭘﺎﺅﮞ ﺁ ﺟﺎﺋﮯ .
ﭘﮭﺮ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﺁﭖ ﷺ ﻗﺒﺮ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﯿﻮﮞ ﮔﺌﮯ؟ ﮨﻤﯿﮟ ﮐﮩﺘﮯ ، ﮨﻢ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺗﮯ ! ( ﺗﻮ ﺳﺒﺤﺎﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ )
ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﻮ ﺑﻮﻻ
ﺗﮭﺎ ﻧﺎ ! ﺗﯿﺮﯼ ﻗﺒﺮ ﮐﻮ ﺟﻨﺖ ﺑﻨﺎﻭﮞ ﮔﺎ ﺗﻮ ﺍﺏ ﺍﺳﯽ ﻗﺒﺮ ﮐﻮ ﺟﻨﺖ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻗﺒﺮ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ .
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺣﻀﻮﺭ ﷺ ﺍﺗﻨﮯ ﺗﮭﮑﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﯿﮟ؟
ﺗﮭﮑﺎ ﺍﺱ ﻟﺌﯿﮯ ﮨﻮﮞ ﮐﮯ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﻮﺭﯾﮟ ﺍﺱ ﻋﺎﺷﻖ ﮐﮯﺩﯾﺪﺍﺭ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺁ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ، ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﻭﺟﻮﺩ ﺳﮯ ﻟﮓ ﻟﮓ ﮐﺮ ﮔﺰﺭ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ، ﺍﻥ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺗﮭﮏ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ .
:1 ﺳﻨﻦ ﺍﺑﻮ ﺩﺍﺅﺩ : ﺟﻠﺪ : 3 ، / ﺻﻔﺤﮧ : 185 ، / ﺣﺪﯾﺚ : 3095 ،
:2 ﻣﺴﻨﺪ ﺍﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ : ﺟﻠﺪ : 3 ، / ﺻﻔﺤﻪ : 175 ، / ﺣﺪﯾﺚ : 12815 ،
ﺣﺎﻓﻆ ﺍﺑﻦ ﮐﺜﯿﺮ : ﻓﯽ ﺗﻔﺴﯿﺮ ﺍﺑﻦ ﮐﺜﯿﺮ

European's hate bathing.

ﯾﻮﺭﭖ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﮐﻔﺮ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ                                           
ﯾﻮﺭﭖ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﺳﺨﺖ ﺑﺪﺑﻮ ﺁﺗﯽ ﺗﮭﯽ ! ﺭﻭﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻗﯿﺼﺮ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ    ﺳﮯ ﻓﺮﺍﻧﺲ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻟﻮﺋﯿﺲ ﭼﮩﺎﺭﺩﮨﻢ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯿﺠﮯ ﮔﺌﮯ ﻧﻤﺎﺋﻨﺪﮮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ :" ﻓﺮﺍﻧﺲ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺑﺪﺑﻮ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺩﺭﻧﺪﮮ ﮐﯽ ﺑﺪﺑﻮ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ
ﻣﺘﻌﻔﻦ ﮨﮯ " ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻟﻮﻧﮉﯼ ﺗﮭﯽ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ " ﻣﻮﻧﭩﯿﺎ ﺳﺒﺎﻡ " ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺑﺪﺑﻮ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﮈﺍﻟﺘﯽ ﺗﮭﯽ ۔ 

ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺧﻮﺩ ﺭﻭﺳﯽ ﺑﮭﯽ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﭘﺴﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﮯ، ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺳﯿﺎﺡ ﺍﺑﻦ ﻓﻀﻼﻥ ﻧﮯ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ : "ﺭﻭﺱ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻗﯿﺼﺮ ﭘﯿﺸﺎﺏ ﺁﻧﮯ ﭘﺮ ﻣﮩﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮨﯽ ﮐﮭﮍﮮ ﮐﮭﮍﮮ ﺷﺎﮨﯽ ﻣﺤﻞ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﭘﺮ ﭘﯿﺸﺎﺏ ﮐﺮ ﺗﺎ ﮨﮯ، ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﮮ ﭘﯿﺸﺎﺏ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺳﺘﻨﺠﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ، ﺍﯾﺴﯽ ﮔﻨﺪﯼ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﯽ " ۔

ﺍﻧﺪﻟﺲ ﻣﯿﮟ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﻠﮑﮧ "ﺍﯾﺰﺍﺑﯿﻼ" ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﺩﻭ ﺑﺎﺭ ﻧﮩﺎﺋﯽ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺣﻤﺎﻣﻮﮞ ﮐﻮ ﮔﺮﺍ ﺩﯾﺎ ۔ ﺍﺳﭙﯿﻦ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ "ﻓﻠﯿﭗ ﺩﻭﻡ" ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﺎﻧﮯ ﭘﺮ ﻣﮑﻤﻞ ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ ﻟﮕﺎ ﺭﮐﮭﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺍﯾﺰﺍﺑﯿﻞ ﺩﻭﺋﻢ ﻧﮯ ﻗﺴﻢ ﮐﮭﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺷﮩﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﻣﺤﺎﺻﺮﮦ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﺩﺍﺧﻠﯽ ﻟﺒﺎﺱ ﺑﮭﯽ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﮮ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺎﺻﺮﮦ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﻦ ﺳﺎﻝ ﻟﮕﮯ، ﺍﺳﯽ ﺳﺒﺐ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻣﺮﮔﺌﯽ ۔

ﯾﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﮨﯿﮟ، ﺟﺐ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﯿﺎﺡ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﻟﮑﮫ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ، ﺟﺐ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﺎﺋﻨﺴﺪﺍﻥ ﻧﻈﺎﻡ ﺷﻤﺴﯽ ﭘﺮ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮩﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﮔﻨﺎﮦ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﮮ ﮐﺮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ،
ﭘﮭﺮ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﻮﮞ ﺟﯿﺴﮯ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﻣﻠﮯ ﺗﻮ ﺣﺎﻝ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ !!

ﺟﺐ ﻟﻨﺪﻥ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﺮﺱ ﮐﯽ ﺁﺑﺎﺩﯾﺎﮞ 30 ﺍﻭﺭ 40 ﮨﺰﺍﺭ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺷﮩﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺁﺑﺎﺩﯾﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﻣﻠﯿﻦ ﮨﻮﺍ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ، ﻓﺮﻧﭻ ﭘﺮﻓﯿﻮﻡ ﺑﮩﺖ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭘﺮﻓﯿﻮﻡ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﭘﯿﺮﺱ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﻮﻣﻨﺎ ﻣﻤﮑﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ۔ ﺭﯾﮉ ﺍﯾﮉﯾﻦ ﯾﻮﺭﭘﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﻟﮍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮔﻼﺏ ﮐﮯ ﭘﮭﻮﻝ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﭨﮭﻮﻧﺲ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﯾﻮﺭﭘﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﺪﺑﻮ ﺗﯿﺰ ﮨﻮ ﺗﯽ ﺗﮭﯽ !!

ﻓﺮﺍﻧﺴﯿﺴﯽ ﻣﻮﺭﺥ "ﺩﺭﯾﺒﺎﺭ" ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ :"ﮨﻢ ﯾﻮﺭﭖ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻘﺮﻭﺽ ﮨﯿﮟ، ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﯽ ﮨﻤﯿﮟ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﯿﻨﮯ ﮐﺎ ﮈﮬﻨﮓ ﺳﮑﮭﺎ ﯾﺎ، ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﯽ ﮨﻤﯿﮟ ﻧﮩﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﻟﺒﺎﺱ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮐﺮﻧﺎ ﺳﮑﮭﺎﯾﺎ، ﺟﺐ ﮨﻢ ﻧﻨﮕﮯ ﺩﮬﮍﻧﮕﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﭙﮍﻭﮞ ﮐﻮ ﺯﻣﺮﺩ، ﯾﺎﻗﻮﺕ ﺍﻭﺭ
ﻣﺮﺟﺎﻥ ﺳﮯ ﺳﺠﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ، ﺟﺐ ﯾﻮﺭﭘﯽ ﮐﻠﯿﺴﺎ ﻧﮩﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﮐﻔﺮ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺻﺮﻑ ﻗﺮﻃﺒﮧ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ 300 ﻋﻮﺍﻣﯽ ﺣﻤﺎﻡ ﺗﮭﮯ"

  Introduction to Islamic Art Islamic art is one of the world's richest and most diverse artistic traditions, with a history spanning ov...